تہران،30جون؍(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)’’بلومبرگ‘‘ نیوز نیٹ ورک نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2011میں شام میں انقلابی تحریک کے آغاز کے بعد سے ایران ٹینکروں کے ذریعے کروڑوں بیرل تیل بشار الاسد حکومت کو بھیج چکا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس اقدام کا مقصد شامی حکومت کو سقوط سے بچانا ، شامی عوام کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کو جاری رکھنا اور شام میں ایرانی رسوخ کو وسیع کرنا ہے۔امریکی وزارت توانائی کے اندازے کے مطابق 2011میں انقلابی تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی شام کی تیل کی یومیہ پیداوار 4لاکھ بیرل سے کم ہو کر 20ہزار بیرل کے قریب رہ گئی۔
گزشتہ موسم گرما میں امریکی وزارت خارجہ نے اس امر کی تصدیق کی تھی کہ ایران براہ راست صورت میں تیل بھیج کر شام کی اس قلت کی تلافی میں مدد کر رہا ہے۔تیل کے ٹینکروں کی نقل و حرکت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے رواں سال 2016میں ابھی تک شام کو تقریبا 1کروڑ بیرل خام تیل بھیجا ہے جو کہ یومیہ 60ہزار بیرل کے قریب بنتا ہے۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران تیل کی اوسط قیمت 59ڈالر فی بیرل کے لحاظ سے گویا کہ ایران نے جنوری 2016سے اب تک 60کروڑ ڈالر کے قریب امداد دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ سپورٹ صرف تیل کی امداد تک محدود نہیں بلکہ نقدی کی صورت میں امداد بھی ہے۔ شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی میستورا کے نزدیک ایران بشار الاسد کی حکومت کی سپورٹ کے لیے سالانہ تقریبا 6 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ دوسری جانب دیگر ذرائع کے خیال میں حزب اللہ جو بشار الاسد کے لیے جنگجو فراہم کر رہی ہے ، اس کے لیے ایران کی سپورٹ سالانہ 15یا 20ارب ڈالر ہے۔
’’بلومبرگ‘‘کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ رواں سال کے آغاز کے بعد سے اب تک کم از کم 10ایرانی بحری جہاز شام کی بندرگاہ بانیاس پہنچے جو کہ ابھی تک بشار حکومت کے زیر کنٹرول ہے۔ آبنائے ہرمز کے راستے ان جہازوں کے سفر میں 2 سے 3ہفتے لگتے ہیں۔ایران خام تیل شام بھیجنے کے لیے صرف تین ٹینکروں کا استعمال کرتا ہے جو تمام ایک ہی درجےSuezmaxمیں آتے ہیں اور ان میں سے ہر جہاز 10لاکھ بیرل کے قریب لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس سلسلے میں ’’دی واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی‘‘کے ایک نمایاں محقق اینڈرو ٹیبلر کا کہنا ہے کہ شام میں تیل اور گیس پیدا کرنے والے زیادہ تر علاقوں پر کردوں اور داعش کے قبضے کے بعد ، ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کی جانب سے شام کو بھیجا جانے والا خام تیل بشار الاسد کے اقتدار سے چمٹے رہنے کی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔
’’بلومبرگ‘‘کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران نے اُن بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے جو اُس کے متنازع نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے عائد کی گئی تھیں۔اس حوالے سے واشنگٹن میں قائم ادارے Foundation for Defense of Democracies کے چیف ایگزیکٹو مارک ڈوبوئٹز کا کہنا ہے کہ یہ امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں کی کھلی خلاف ورزی ہے"۔ انہوں نے مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کے خیال کی حمایت کی۔ایسا نظر آتا ہے کہ جون 2015میں ویانا معاہدے کے تحت ایران پر سے بین الاقوامی پابندیاں اٹھائے جانے کے ساتھ ہی ، تہران کی جانب سے بشار الاسد حکومت کے لیے خام تیل کی امداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک میں ایران کے منجمد اثاثے واپس ملنے کے بعد دمشق کی مالی سپورٹ بھی بہتر ہوجائے گی۔ مبصرین کے مطابق عالمی برادری اس دوران ان اقدامات پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گی جو کہ ایران کی جانب سے دہشت گردی کی سپورٹ کی نمایاں مثالوں میں شمار ہوتے ہیں۔